Thursday, 29 December 2011

Deep jis ka sirf mehellaat hi main jalay,
Chand logon ki khushyon ko lay ker chalay,
Wo jo saye main har maslihat kay palay;
Aisay dastoor ko,
Subh e bay noor ko,
Main naheen maanta,
Main naheen jaanta.

Main bhee kha’if naheen takhta e daar say,
Main bhee Mansoor hoon, keh do aghyaar say,
Kyun daraatay ho zindaan ki divar say,
Zulm ki baat ko,
Jehel ki raat ko,
Main naheen maanta,
Main naheen jaanta.

Phool shaakhon pay khilnay lagay tum kaho,
Jaam rindon ko milnay lagay tum kaho,
Chak seenon kay silnay lagay tum kaho,
Iss khulay jhoot ko,
Zehan ki loot ko,
Main naheen maanta,
Main naheen jaanta.

Tum nay loota hai sadyon hamara sakoon,
Ab na hum per chalay ga tumhara fasoon,
Chara gar main tumhain kiss tara say kahoon?
Tum naheen charaagar,
Koi maanay magar,
Main naheen maanta,
Main naheen jaanta.

Tuesday, 27 December 2011

پھر اس کے بعد گر گیا سونے کا بھاوء بھی
اک شام اس نے کان سے جھمکا اتارا تھا
شاعر : اختر رضا سلیمی
Tarapta hai, sisakta hai, trasta hai magar Mohsin,
usay kehna kisi kay hijer main mrta nahi koi !!
Qadam qadam pe jama tha musafiron ka lahoo

Wafa ke shehar ka rasta ajeeb tha kitna
Usey kaho k main ab saans lena chahta hoon...
Merey wajood se waadon ki rassiyaan kholey...

Wednesday, 21 December 2011

Naraz hain to jaiye ..... lekin ye shart hai,
Humse na boliye to kisi se na boliye.....
Bandagi ham ne chorr di hai Faraz
Kya karain log jab khuda ho jaaen
Dil bhi gustaakh ho chala tha bohat....
Shukr hy aap be-wafaa niklay...
JAb kisi dard ka darmaa'N na ho mumkin logo
Haakim-e-waqt ki dasstar gira dee jaaey
Roz Aata Hai Mere Dil Ko Tassalli Dene....

Khayal E Yaar Ko Mera Khayal Kitna Hai....
Phr usi shakhs sy umeed e wafa,
Tujhy ae zindgi kya ho gya hai.....
نصیحت
کلاس روم میں سناٹا طاری تھا۔ طلبا کی نظریں کبھی استاد کی طرف اٹھتیں اور کبھی بلیک بورڈ کی طرف۔ استاد کے سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ سوال تھا ہی ایسا۔ استاد نے کمرے میں داخل ہوتے ہی بغیر ایک لفظ کہے بلیک بورڈ پر ایک لمبی لکیر کھینچ دی۔ پھر اپنا رخ طلبا کی طرف کرتے ہوئے پوچھا، ’’تم میں سے کون ہے جو اس لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کر دے ؟‘‘۔’’یہ ناممکن ہے ۔‘‘، کلاس کے سب سے ذہین طالبعلم نے آخر کار اس خاموشی کو توڑ تے ہوئے جواب دیا۔ ’’لکیر کو چھوٹا کرنے کے لیے اسے مٹانا پڑ ے گا اور آپ اس لکیر کو چھونے سے بھی منع کر رہے ہیں ۔‘‘ باقی طلبا نے بھی گردن ہلا کر اس کی تائید کر دی۔ استاد نے گہری نظروں سے طلبا کو دیکھا اور کچھ کہے بغیر بلیک بورڈ پر پچھلی لکیر کے متوازی مگر اس سے بڑ ی ایک اور لکیر کھینچ دی۔ جس کے بعد سب نے دیکھ لیا کہ استاد نے پچھلی لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کر دیا تھا۔ طلبا نے آج اپنی زندگی کا سب سے بڑ ا سبق سیکھا تھا۔ دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر، ان کو بدنام کیے بغیر، ان سے حسد کیے بغیر، ان سے الجھے بغیر ان سے آگے نکل جانے کا ہنر چند منٹ میں انہوں نے سیکھ لیا تھا۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پر پیدا کیا ہے اس میں اپنا موازنہ دوسروں سے کر کے ان سے آگے بڑ ھنا انسان کی طبیعت میں شامل ہے ۔ اس کام کو کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ دوسرے کو چھوٹا بنانے کی کوشش کی جائے۔ مگر ایسی صورت میں انسان خود بڑ ا نہیں ہوتا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دوسروں سے الجھے بغیر خود کو مضبوط، طاقتور اور بڑ ا بنانے پر توجہ دی جائے ۔ دوسرے اس شکل میں بھی چھوٹے ہوجاتے ہیں ، مگر اصل بات یہ ہے کہ اس عمل میں انسان خود بڑ ا ہوجاتا ہے۔ دوسروں سے الجھے بغیر آگے بڑ ھنا، خدا کی دنیا میں ترقی کا اصل طریقہ ہے۔ فرد اور قوم دونوں کے لیے دیرپا اور مستقل ترقی کا یہی واحد راستہ ہے ۔ جہاں رہیے اللہ کے بندوں کے لیے باعثِ آزار نہیں، باعثِ رحمت بن کر
دراصل مجاز بذات خود حقیقت ہے، اور یہ حقیقت اس وقت تک مجاز کہلاتی ہے، جب تک رقیب ناگوار ہو۔ جس محبت میں رقیب قریب اور ہم سفر ہو، وہ عشق حقیقی ہے۔ اپنا عشق، اپنا محبوب اپنے تک ہی محدود رکھا جائے تو مجاز، اور اگر اپنی محبت میں کائنات کو شریک کرنے کی خواہش ہو تو حقیقت۔ رانجھے کا عشق مجاز ہو سکتا ہے، لیکن وارث شاہ کا عشق حقیقت ہے۔ عشق حقیقی، عشق نور حقیقت ہے۔ یہ نور، جہاں سے بھی عیاں ہو گا، عاشق کے لیے محبوب ہو گا۔ عشق نبی عشق حقیقی ہے۔ عشق ال نبی ، عشق حقیقی ہے۔ عشق اصحاب نبی، عشق حقیقی ہے۔ اویس قرنی کا عشق حقیقی ہے۔ عشق رومی عشق حقیقی ہے۔ بلکہ اقبال کا عشق بھی عشق حقیقی ہی کہلائے گا۔
اہلِ ظاہر کیلئے جو مقام مقامِ صبر ہے ‘ اہلِ باطن کیلئے وہی مقام مقامِ شکر ہے
کوئی انسان اس وقت تک کسی کی تعریف نہیں کر سکتاجب تک وہ خودبھی اس تعریف کا اہل نہ ہوجائے۔کسی کی عظمت کا معترف ہونے والا خود بھی ایک عظمت کا حامل ہوتاہے … اور کسی انسان کی عظمت کا منکردراصل خود کسی تعریف کے قابل نہیں ہوتا۔ جو کسی انسان کا معترف نہیںہوتا‘ وہ خود معتبر نہیںہوتا۔
بات تعریف سننے کی نہیں … تعریف کرنے کی ہورہی ہے۔ تعریف کرنے کا مدعا اگر ذاتی مفادہے تو یہ خوشامد ہے۔ وہ تعریف جس میں علم اور محبت شامل ِ حال نہ ہو‘ جھوٹ کے زمرے میں آتی ہے …


شک ‘ ایمان کی نفی ہے۔ وسوسہ ‘ یقین کا گھُن ہے۔ اگر عاقبت اور خدا پر یقین نہ ہو ‘ تو خیال پراگندہ ہو جاتا ہے۔ پراگندہ خیال سماج میں انتشار پیدا کرتا ہے۔ جب تک انسان کو اپنے عقیدے پر مکمل اعتماد اور اعتقاد نہ ہو ‘ وہ حقیقت کو کیسے تسلیم کر سکتا ہے
اسلام مسلمانوں کی وحدتِ فکرو عمل کا نام ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت ہمیشہ اسلام کے قریب رہے گی۔ وحدتِ ملت سے جدا ہونے والا فرقہ اسلام سے جدا ہو جاتا ہے
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا


میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ،


جب لوگوں کا یہ حال ہو جائے کہ وہ برائی دیکھنے


اور اسے بدلنے کی کوسش نہ کریں ،


ظالم کو ظلم کرتے ہوئے پائیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں


تو قریب ہے کہ اللہ اپنے عذاب میں اس کو لپیٹ دیں ۔


خدا کی قسم تم پر لازم ہے کہ


بھلائی کا حکم دو


اور برائی سے روکو ۔


ورنہ اللہ تم پر ایسے لوگوں کو مسلط کر دے گا ۔


جو تم میں سب سے بدتر ہوں گئے


اور وہ تم کو سخت تکلیف دیں گئے ۔


پھر تمہارے نیک لوگ اللہ سے دعائیں مانگے گئے مگر وہ قبول نہ ہوں گی ۔۔۔۔۔۔۔ ترمذی2178
انسان کی زند گی خواہ کتنی ہی آزاد اور لا تعلق ہو ‘ پا بند اورمتعلق رہتی ہے ۔انسان دوڑتا ہے ‘ لیکن فاصلوں کی حدود میں۔ انسان اُڑتا ہے اور خلا کی پہنا ئیو ں کے اند ر وہ ارض و سما وات کے اند ر ہی رہتا ہے ۔ انسان جب کسی طا قت کو نہیں مانتا ‘ وہ اُس وقت بھی اپنے انکار کی طا قت کے ما تحت ہو تا ہے ۔ انسا ن کو خو شیا ں تما م تر مسر تیں ‘ کسی نہ کسی غم کی زد میں ہو تی ہیں ۔ ہر غم خو شی بن کر آتا ہے اور ہر خو شی غم بن کر رخصت ہو جاتی ہے۔ بس خوشیوں نے رخصت ضرور ہو نا ہے ۔ پیا ری پیا ری ‘ اپنی بیٹیوں کی طرح _____ کیا کیاِ جا ئے !
دعاپراعتمادہی نیکی ہے۔
جب ہم تنہا اورخاموشی میں دعامانگتے ہیں تو ہم اس یقین کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ
ہماراللّہ تنہا ئی میں ہمارےپاس ہے
اور خاموشی کی زبان سمجھتا ہے۔
دعا میں خلوص آنکھوں کو پُرنم کر دیتا ہے
اوریہی آنسو دعا کی منظوری کی دلیل ہیں۔
دعا مومن کا سب سے بڑا سہاراہے۔
دعا نا ممکن کو ممکن بنا دیتی ہے۔
دعا آنے والی بلاءوں کو ٹال سکتی ہے۔
دعا میں بڑی قوت ہے۔
جب تک سینے میں ایمان ہے،
دعا پر یقین رہتا ہے۔
جس کا دعا پر یقین نہیں
اُس کے دل میں ایمان نہیں۔
اللّھ تعالٰی سےدعا کرنی چا ہیے
کہ وہ ہمیں دعاءوں کی افادیت سےمایوس نہ ہونے دے۔


اللّھ ہمیں اپنی درگاہ میں زیادہ سے زیادہ ہاتھ اُ ٹھانے،
بلانے،
دعا کرنےاورمانگنےکی توفیق عطا فرمائے۔
آمین۔ ثمہ آمین یارب العالمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا میں کسی اچھے انسان کو تلاش کرنے سے بہتر ہے کہ آپ خود اچھے


بن جاؤ , ہو سکتا ہے کہ آپ کے اس عمل سے کسی اور کی تلاش ختم ہو جاۓ(امام حسن مجتبٰی ع)
حکیم لقما ن ایک دن اپنے شا گر دوں کو حکمت و دانا ئی کا درس دے رہے تھے ۔

ایک شخص سا منے آکر کھڑا ہو گیا ،دیر تک ان کی صورت پر غو ر کر تا رہا اور آخر پہچان کربو لا ۔
تم وہی آدمی ہو نا ں جو فلاں مقا م پر میرےسا تھ بکر یا ں چرایا کرتے تھے ۔
ہا ں میں وہی شخص ہو ں
تب اس نے متحیر ہو کر کہا ۔یہ مر تبہ تمہیں کیونکر حا صل ہو ا؟
لقما ن نے فرما یا ۔دو با توں سے
ـــــــــــ "ایک سچ بولنا اور دوسرا بلا ضرورت با ت نہ کر نا ۔"ــــــــــــ

Monday, 19 December 2011

اِسلام میں قیادت کا تصور یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے حکم ہے کہ اللہ کی اطاعت کرو ‘ اللہ کے رسول مقبولﷺ کی اطاعت کرو اور اُولی الامر کی اطاعت کرو…. اُولی الامر کی بحث نہیں ….یہ بحث واقعہ کربلا سے ختم ہو گئی…….. اُولی الامر یزید نہیں تھا ، امام ؑ عالی مقام تھے …. اگر حاکمِ وقت کے اوصاف اِسلام کی منشا کے علاوہ ہوں تو اسے اُولی الامر نہ کہو…. اگر وہ اِسلام میں فرماں بردار ہے تو اس کے اُولی الامر ہونے پر غور کر لینا نامناسب تو نہیں….!
جو چیزیں آپ کو بہت پیاری ہیں اُن کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ اگر پسندیدہ شے آپ نے دریا کے پار بھیج دی ہے تو آپ کا دریا کے پار جانا آسان ہو جاتا ہے۔ جن کا پسندیدہ مال موت کے پاس ہے اُن کا مرنا آسان ہے۔پیسہ اور اپنی پسند کی اشیاءکو آگے بھیجتے رہا کرو ‘ آپ کے لیے وہاں جانا آسان ہو جائے گا۔
ذوقِ سفر کاپیدا کرنا قیادت کا فرض ہے۔قائد کو چاہیے کہ وہ قوم میں بیداری کی روح پھونک د ے۔ذوقِ سفر‘ عطائے رحمانی ہے۔رحمتِ حق کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے کہ اے مہرباں اللہ!دے ہمیں کوئی حدی خواں جو زندگی پیدا کر دے اس قوم میں !!
مقدس الفاظ کو منزہ زبان میسر نہ ہو تو لفظ اپنی تاثیر کھو بیٹھتا ہے

منزل ہی تو ذوق ِسفر پیدا کرتی ہے اور ذوق ِ منزل رہنمائے سفر ہوتا ہے
اگر حال محفوظ ہوجاے تو سارا مستقبل محفوظ
میں نے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے پاس کوئی قیمتی چیز ہے تو وہ اس کی خوب حفاظت کرتے ہیں، پھر میں نے اس آیت پرغور کیا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہونے والاہے اور جو خدا کے پاس ہے وہ باقی رہنے والاہے۔ چنانچہ میں اپنی ہر قیمتی چیز کو خدا کے حوالے کردیتاہوں تاکہ وہ میرے لیے باقی رہے اور میرے کام آئے۔
ـــــــــــ
اما م غزالی
اپنی ذات کا سفر کسی اور ذات کے تعاون کے بغیر ممکن ہی نہیں…یہ وسیلہ
ہی خود بینی کے لئے اہم ترین ذریعہ ہے۔خود شناسی نہ ہو تو خدا شناسی کا عمل ممکن
ہی نہیں… آئینہ ہی آنکھوں کو اپنے باطن میں اترنے کا راستہ بتاتا ہے۔
اگر آئینہ میسر نہ ہو توآنکھ خود کو دہر شناس سمجھ کر غرور میں مبتلا ہو جاتی ہے
اللہ تعالیّ نے حقاِئق کی جتنی وضاحت فرما دی ہے۔ وہ بندے کی ھدایت کے لیے


کافی ہے۔ زیادہ وضاحتوں کی خواہش سے گمراہی میں مبتلا ہونے کا سوال پیدا ہوتا ہے۔


اللہ کریم سے یہ پوچھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ اس نے ایسا کیوں کیا اور


ویسا کیوں نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس ہمیں تیار رہنا چاہیے کہ اللہ ہم سے پوچھے


گا کہ ہم نے ایسا کیوں کیا اور ویسا کیوں ۔
شک ‘ ایمان کی نفی ہے۔ وسوسہ ‘ یقین کا گھُن ہے۔ اگر عاقبت اور خدا پر یقین نہ ہو ‘ تو خیال پراگندہ ہو جاتا ہے۔ پراگندہ خیال سماج میں انتشار پیدا کرتا ہے۔ جب تک انسان کو اپنے عقیدے پر مکمل اعتماد اور اعتقاد نہ ہو ‘ وہ حقیقت کو کیسے تسلیم کر سکتا ہے
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
" مجھے نئے کپڑوں میں دفن نہ کیا جائے ! نئے کپڑوں کے زیادہ مستحق وہ ہیں جو زندہ اور برہنہ ہیں" ۔
رات کی تا ریکی میں دور سےنظر آنے والا چر اغ روشنی تو نہیں دے سکتا لیکن ایسی کیفیا ت مر تب کر تا ہے ،کہ مسا فر ما یو سی سے نکل کر امید تک پہنچتا ہے اور امید سے یقین کی منز ل دو قد م پر ہیں۔
ایک مرتبہ رابعہ بصری سے پوچھاگیاکہ کیا آپ شیطان سے نفرت کرتی ہیں؟ رابعہ بصری نے جواب دیاکہ خدا کی محبت نے میرے دل میں اتنی جگہ ہی نہیں چھوڑی کہ اس میں کسی اورکی نفرت یامحبت سماسکے۔
اگر اللہ کے محبوب نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ اور اگر کچھ بھی نہ ہوتا تو صرف اللہ ہوتا۔ اور صرف اللہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ حاصل یہ کہ ہمیں اللہ اور اللہ کے حبیب کے مقامات پر بحث نہ کرنی چاہیے۔ اللہ کا مقام اللہ کا حبیب جانے اور حبیب کا مقام اللہ جانے۔
اے اللہ ہمارے گناہ معاف فرما دے۔
اے اللہ ہماری خطاؤں کو درگذر فرما۔
اے اللہ ہمیں نیکیوں کی توفیق عطا فرما، ہمارے چھپے اور کھلے گناہ، اگلے پچھلے گناہ معاف فرما، بے شک تیری معافی بہت بڑی ہے۔
اے اللہ اپنی رحمت کے دامن میں چھپا لے۔
اے اللہ ہمیں رات اور دن کے فتنوں سے بچا۔
اے اللہ ہمیں جنوں اور انسانوں کے فتنوں سے بچا۔
اے اللہ زندگی اور موت کے فتنوں سے بچا۔
اے اللہ ہماری آہ زاری سن لے۔
اے اللہ ہماری جسمانی اور روحانی بیماریوں کو صحت عطا فرما۔
اے اللہ ہمیں جسمانی طاقت اور قوت عطا فرما۔
اے اللہ ہم کو مصیبت سے نجات عطا فرما۔
اے اللہ ہمیں حضرت آدم علیہ السلام جیسی توبہ نصیب فرما۔
اے اللہ حضرت یعقوب علیہ السلام جیسی گریہ و زاری نصیب فرما۔
اے اللہ ہمیں ابراہیم علیہ السلام جیسی دوستی نصیب فرما۔
اے اللہ ہمیں ایوب علیہ السلام جیسا صبر نصیب فرما۔
اے اللہ ہمیں داؤد علیہ السلام جیسا سجدہِ شکر نصیب فرما۔
اے اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے عمل نصیب فرما۔
اے اللہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسا صدقہ نصیب فرما۔
اے اللہ عمر رضی اللہ عنہ جیسا جذبہ نصیب فرما۔
اے اللہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جیسا غنا عطا فرما اور شرم و حیا نصیب فرما۔
اے اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسی شجاعت و بہادری نصیب فرما۔
اے اللہ آئمہ دین جیسی خدمتِ اسلام نصیب فرما
اے اللہ ہمیں خلفائے راشدین جیسی بھلائیاں نصیب کر، ہمیں پیغمبری زندگی اور پیغمبری موت تحفہ بنا کر بھیج۔
اے اللہ ہمیں موت تحفہ بنا کر بھیج، ہماری موت کو رحمت بنانا زحمت نہ بنانا۔
اے اللہ ہماری قبروں کو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ بنانا۔
اے اللہ ہمیں ایمان اور علم کی دولت سے مالامال کر دے۔
اے اللہ تمام بے نمازیوں کو نمازی بنا دے۔
اے اللہ بے روزگار کو رزقِ حلال عطا فرما۔
اے اللہ گمراہوں کو راہ پر لے آ۔
اے اللہ مفلس کو غنی کر دے۔
اے اللہ مسلمانوں کو حلال روزی نصیب فرما۔
اے اللہ بے اولادوں کو نیک اور صالح اولاد نصیب فرما۔
اے اللہ جو اولاد سے گھبرا گئے ہیں انہیں معاف فرما دے۔
اے اللہ بدکردار کے کردار کو درست فرما دے۔
اے اللہ بد اخلاق کو مکرم الاخلاق فرما دے۔
اے اللہ سلامتی والا دل، ذکر والی زبان اور رونے والی آنکھیں نصیب فرما دے۔
اے اللہ ہمیں دین و دنیا کی عزت نصیب فرما۔
اے اللہ ماں باپ کے نافرمانوں کو ان کا فرمابردار فرما دے۔
اے اللہ بے چینوں کو چین عطا فرما، اجڑے ہوئے گھروں کو آباد کر دے اور جن گھروں میں نااتقافی ہے انکو اتفاق کی دولت سے مالامال کر دے۔
اے اللہ ہمارے بچوں کو پاک دامنی عطا فرما اور انہیں زندگی کا نیک ساتھی نصیب فرما۔
اے اللہ پاکستان کی حفاظت فرما اور اسے دشمنوں اور اپنوں کی چیرہ دستیوں سے محفوط رکھ۔
اے اللہ ہمارے حکمرانوں کو حقائق جاننے، سمجھنے اور اس کی روشنی میں صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرما۔
اے اللہ عالم اسلام میں اتحاد و اتقاق عطا فرما۔
اے اللہ عالم اسلام کے حکمرانوں کے ایک دوسرے پر انحصار کرنے کی قوتِ فیصلہ عطا فرما۔
اے اللہ ہماری قبروں کو جہنم کا گڑھا نہ بنا۔
اے اللہ منکرِ نکیر کر سوالات کے وقت ہمیں ثابت قدم رکھنا۔
اے اللہ ہماری زندگی اور موت کے بعد قرآن کو ہمارا مونس و غمگسار بنا دے۔
اے اللہ ہمارے اعمال نامے ہمارے داہنے ہاتھ میں دینا۔
اے اللہ ترازو کا پلڑا نیکیوں سے وزنی کرنا۔
اے اللہ ہمارے چہروں کو قیامت کے دن چمکتا رکھنا۔
اے اللہ پُل صراط ہمارے آسان فرما۔
اے اللہ ہم پر اپنی رحمتوں اور کرموں کی بارش کر دے۔
اے اللہ ہمیں جہنم سے بچا کر جنت الفردوس نصیب فرما۔
اے اللہ ساقیِ کوثر صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے حوض کوثر سے پانی پلانا۔
اے اللہ تو سراپا عطا ہی عطا ہے مگر ہمیں مانگنے کا سلیقہ نہیں۔
اے اللہ ان ٹوٹے پھوٹے لفظوں کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرما۔
اے اللہ ہمارے ملک اور امت اسلامیہ پر اپنا کرم کر، اور ہمیں شعور اور آگاہی دے کہ ہم اپنے معاملات کو خود سنبھال سکیں اور اغیار اور کفار کی طرف نہ دیکھیں ،
اے اللہ ۔ ہمیں اسلام پر ثابت قدم رہنے کی توفیق دے ۔
آمین ثم آمین
ایسا کوئی نہیں ملے گا جو اسلام کی ایسی تعریف پیش کرے جس سے سارے پاکستانی مسلمان ثابت ہو جائیں۔ نا ممکن ہے۔ آدھے لوگ تو ضرور کافر ثابت ہوتے ہیں۔
فانی کی محبت فنا پیدا کر دے گی ، باقی کی محبت بقا پیدا کرے گی۔ فانے کی محبت دل سے نکال دو تاکہ آپ کو بقا کا راستہ ملے۔
محبت کرنے والوں کی صداقت اور ہے‘محرومِ محبت کا سچ اور ہے۔مثال کے طور پر لفظ’’انسان‘‘کو لیں۔ہر آدمی انسان کے بارے میں الگ شعور رکھتا ہے۔انسان کی تعریف میں ہمیں طرح طرح کے بیان ملیں گے۔مثلاً:
انسان اشرف المخلوقات ہے۔
انسان ظلوم و جہول ہے۔
انسان ہی احسنِ تقویم کی شرح ہے۔انسان اسفل السافلین بھی تو ہے۔
فطرت انسان پر فخر کرتی ہے۔
فطرت انسان کے اعمال پر شرمندہ ہے۔
انسان روشنی کا سفیر ہے۔
انسان اندھیرے کا مسافر ہے۔
انسان کو سوچنے والا بنایا گیا ہے۔اس کے سینے میں دھڑکنے والا دل ہے۔
انسان کے پاس سوچنے کا وقت ہی نہیں۔اس کے سینے میں برف کی سِل ہے۔
انسان کو انسان سے اتنی محبت ہے کہ انسان انسان پر مرتا ہے۔
انسان کو انسان سے اتنی نفرت ہے کہ انسان انسان کو مارتا ہے۔
انسان رحمان کا مظہر ہے۔
انسان شیطان کا پیروکا ر ہے۔
انسان فطرت کے ہر راز سے باخبر ہے۔
انسان اپنے آپ سے بھی بے خبر ہے۔
انسان کی خاطر اللہ نے شیطان کو دور کر دیا۔
شیطان کی خاطر انسان اللہ سے دور ہو گیا۔
انسان کو ان کے عمل اور ارادے میں آزاد رہنے دیا گیا۔
انسان کے عمل پر جبر کے پہرے بٹھا دے گئے۔
انسان کو اللہ نے آزادی دی،بادشاہی دی،عزت دی۔
انسان کو کس نے مجبوری دی،غلامی دی،ذِلت دی؟
انسان حیا کا پیکر ہے۔انسان لطافتوں کا مرقع ہے۔
انسان جنسیات کے تابع ہے۔انسان معاشیات سے مجبور ہے۔
انسان سماج بناتا ہے۔
انسان سماج شکن ہے۔
انسان صلح کا خوگر ہے۔
انسان جنگ و جدل کا شائق ہے۔
انسان کو علم ملا،زندگی ملی۔
انسان کو جہالت ملی،موت ملی۔
انسان دنیا میں بہت کچھ کھوتا ہے۔بہت کچھ پاتا ہے۔
انسان نہ کچھ کھوتا ہے نہ کچھ پاتا ہے۔وہ صرف آتا ہے اور جاتا ہے۔
غرضیکہ ایک لفظ’’انسان‘‘کی صداقتیں ہی اتنی وسیع المعنی ہیں کہ اس کے کوئی معنی نہیں۔انسان سب کچھ ہے۔انسان کچھ بھی نہی
انسان دوسرے کی دولت ریکھ کر اپنے حالات پر اس قدر شرمندہ کیوں ھوتا ھے۔یہ تقسیم تقدیر ھے۔ہمارے لئے ہمارے ماں باپ ہی باعث تکریم ہیں۔ ہماری پہچان ہمارا اپنا چہرہ ھے۔ہماری عاقبت ہمارے اپنے دین میں ھے۔اسی طرح ہماری خوشیاں ہمارے اپنے حالات اور ماحول میں ہیں۔ہم یہ نھیں جان سکتے کہ فلاں کے ساتھ ایسا کیوں اور ہمارے ساتھ ویسا کیوں ہے۔
محبت کی تعریف مشکل ہے. اس پر کتابیں لکھی گئی. افسانے رقم ہوے. شعرا نے محبت کے قصیدے لکھے. مرثیے لکھے. محبت کی کیفیت کا ذکر ہوا. وضاحتیں ہوئیں. لیکن محبت کی جامع تعریف نہ ہو سکی. واقعہ کچھ اور ہے روایت کچھ اور. بات صرف اتنی سی ہے کہ جب ایک چہرہ انسان کی نظر میں آتا ہے تو اسکا انداز بدل جاتا ہے. کائنات بدلی بدلی سی لگتی ہے. بلکہ ظاہر و باتیں کا جہاں بدل جاتا ہے. محبت سے آشنا ہونے والا انسان ہر طرف حسن ہے حسن دیکھتا ہے. محب کو محبوب میں کجی یا خامی نظر نہیں آتی. اگر نظر آئے بھی تو محسوس نہیں ہوتی. محسوس ہو بھی تو ناگوار نہیں گزرتی. محبوب کی ہر ادا دلبری ہے
اگر تو چاہتا ہے کہ دن کی طرح روشن ہو جاۓ،... تو اپنی ہستی کو اپنے دوست کے
سامنے جلا ڈال........!!


(مولانا روم )
"غم چھوٹے آدمی کو توڑ دیتا ہے. اگر غم میں غم دینے والے کا خیال رہے تو پھر انسان بہت بلند ہو جاتا ہے
سوال-آجکل کے حالات میں یکسوئی کیسے پیدا ہوسکتی ہے؟
جواب-


آپ جب دنیا میں ہوتے ہیں تو پھر آپ کہتے ہیں کہ اللہ کی طرف سیدھے رستے کا نسخہ چاہیے،جب اللہ قریب ہوتا ہے تو آپ دنیا مانگ لیتے ہیں اگر آپ کہتے ہیں کہ دنیا مانگنا بھی بس ٹھیک ہے تو جائز ہے بالکل جائز بات ہے آپ ٹھیک کہ رہے ہیں ،یہ ضروری ہے کہ اللہ کے حکم میں اولاد کی پرورش ضروری ہے ،اللہ کے حکم میں زندگی گزارنا ضروری ہے ،لیکن پھر اللہ کے حکم میں یہ نہیں ہے کہ آپ اس طرح اللہ کو تلاش کریں کیونکہ آپ کہتے ہیں حکم زندگی کا ہے ،تو پھر لوگ زندگی چھوڑ کہ اللہ کی تلاش کرتے ہیں اور یہ حکم کی بات نہیں ہے کیونکہ محبت کا حکم نہیں ہے محبت تو ایک عطا ہے ۔مقصد یہ ہے کہ آپ کی زندگی کی ضروریات اور واقعات کی ضروریات ضروری ہیں مگر پھر اللہ کی لائن سیدھی کیسے ہونی ہے ،یکسوئی کیسے ہونی ہے ؟ اس طرح یکسوئی ہو ہی نہیں سکتی یہ نہیں ہوسکتی جب تک آپ اس اصل مقصد کو باقی مقاصد پر فوقیت نا دیں یعنی کہ ایک مقصد۔تو یکسوئی کا مطلب ہی ہے کہ ایک مقصد ہو


یہاں آکر لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو شریعت کا کام ہے اور یہ ضروری ہے دعا یہ کی جائے کہ ہم ایک طرف چلے جائیں یعنی اللہ کی طرف اور جب ہم اللہ کے قریب ہوتے ہیں تو پھر فرائض دنیاا آجاتے ہیں ۔۔۔۔۔اس وقت جب اللہ چاہیے فرائض دنیا ترک کر دو اگر کوئی شکص ادھر اللہ کی طرف جانا چاہے تو وہ محبت میں چل پڑا تو ،پھر اسکے خیال میں یکسوئی آجائے گی-ایک خیال کے لیے بہت سے خیال چھوڑنے پڑتے ہیں


مثلا جو جاگنے والا ہے جیسے رات کو کچھ لوگ جاگتے ہیں اور آپ سے کہا جائے کہ جاگو تو آپ کہیں گے یہ بھی اللہ کا حکم ہے کہ صحت کا خیال رکھو -یہ تو ٹھیک بات ہے اور اللہ کا حکم ہے کہ صحت کا کیال رکھو اور پھر جاگنے کی خواہش ہی نا کرو


پھر اگر جاگو گے تو صحت کہ اللہ کے حوالے کر کے جاگو گے ۔آپ بات سمجھ رہے ہیں ؟


تو یہ ایک ایسا واقعہ ہے ،مثلا جیسے لوگ حج کرنے جاتے ہیں تو ایک بندہ حج کرنے نا گیا اس سے کسی نے پوچھا تو کیوں نا گیا؟ کہتا ہے کہ دیکھو میرے حالات ایسے نہیں ،اور کچھ لوگ شوق میں ادھر ادھر سے ادھار لے کے چلے جاتے ہیں اور کچھ لوگ تو اچھے حالات کے باوجود حج پہ نہیں جاتے


تو یہ سب شوق کی داستان ہے ،اگر شوق نا ہو یکسوئی نہیں ہوسکتی ،شوق کا نام ہی یکسوئی ہے یہ آپ کے اندر ہوتی ہے اور آپ کے ساتھ ہی پیدا ہوتی ہے ،جب تک آپ میں زوق نا ہو یکسوئی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
جب انسان اللہ پاک سے دور ہو جائے تو سکون انسان سے دور ہو جاتا ہے۔اور اس کی جگہ اندیشہ اور خوف مسلط کردیا جاتا ہے۔
محبوب محب کی زندگی میں عجب رنگ دکھاتا ہے۔۔۔ محبت انسان کو ماسواۓ محبوب سے اندھا کر دیتی ہے۔۔۔ وہ کسی اور شے کو دیکھ کر بھی نہیں دیکھتا۔۔۔ اس کے دل و نگاہ میں ایک ہی جلوہ رہتا ہے، محبوب کا جلوہ

Sunday, 18 December 2011

Mjhe Aksar Rulaty Hain..
Mohabat, Barshain, or TUM...!!
Bohat Nazdeek Atay ja Rahay Ho..
Bicharnay Ka Irada Ker Lia Hai Kia?
Mukhtasir ye k tmharay bin


Zindagi ki samaj nahi aatiii
Aik Misraa hai Zindagi Meri..
Tum jo chaho to "Sha'air" hojaey !!

Dr. Azhar Waheed

٭
جن سے محبت ہو۔ ۔ ۔ اُنہیں متاثر کرنے کی ہر گزکوشش نہیں کرنی چاہئے ۔ ۔ ۔ متاثر ہونا مرعوب ہونا ہے ۔ ۔ ۔ اور مرعوبیت اپنایت کا غیر ہے۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔ یہ محبت کی غیرت کو گوارا نہیں ٭
موت ۔ ۔ ۔ عجیب ہے ۔ ۔ ۔ اوراِس کے معنی اس سے بھی عجیب تر!!۔ ۔ ۔ جیسے جیسے زندگی کے معنی بدلتے ہیں ۔ ۔ ۔ زندگی کے ساتھ موت کا رشتہ بدلتا ہے ۔ ۔ ۔ موت بھی اپنے معنی بدلنے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ معنی بدلنے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ یا کھولنے لگتی ہے
ایک وقتِ معین پراپنے اپنے حصے کی زندگی کا عرصہ بسر کرنے کے بعد اکثر لوگ مر جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ کچھ لوگ انتقال کرجاتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور بعض کی رخصتی ہوتی ہے ۔اِس رخصتی کو وصال کہا جاتا ہے ۔ وصال اُسی کا ہوتا ہے جس کا محبوب اُس پار اُس کے لئے محوِ انتظار ہو۔ ۔ ۔
٭
ضبط۔ ۔ ۔ اختلاف کو اِفتراق بننے سے روکتاہے ۔ضبط کا ٹوٹنا ۔ ۔ ۔ ربط کا ٹوٹنا ہے ۔
٭
’میں ‘ کے اندر’’ میں‘‘۔ ۔ ۔ کثافت ہے ۔
’’میں ‘‘کے اندر ’’میں‘‘ رفع ہونے سے رفعت ملتی ہے ۔
٭
اپنے کلام میں معانی کی کمی کو الفاظ کی زیادتی کا سہارا نہ دو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مبادا منافق کہلاؤ۔ ۔ ۔
٭
معانی ۔ ۔ ۔ روح کی ارتعاش سے پیدا ہونے والی ایک موج ہے ۔ ۔ ۔ اور اس موج میں بھی ایک موج ہے ۔ ۔ ۔ اور یہ موج ، دل و دماغ کو بطور واسطہ استعمال کرتی ہے۔

Dr. Azhar Waheed.....Aqas e Khiyal






























Dr. Azhar Waheed.....Aqas e Khiyal






Dr. Azhar Waheed.....Dil Her Qatra




Dr. Azhar Waheed.....Aqas e Khiyal



Dr. Azhar Waheed.....Aqas e Khiyal