Wednesday, 21 December 2011
دراصل مجاز بذات خود حقیقت ہے، اور یہ حقیقت اس وقت تک مجاز کہلاتی ہے، جب تک رقیب ناگوار ہو۔ جس محبت میں رقیب قریب اور ہم سفر ہو، وہ عشق حقیقی ہے۔ اپنا عشق، اپنا محبوب اپنے تک ہی محدود رکھا جائے تو مجاز، اور اگر اپنی محبت میں کائنات کو شریک کرنے کی خواہش ہو تو حقیقت۔ رانجھے کا عشق مجاز ہو سکتا ہے، لیکن وارث شاہ کا عشق حقیقت ہے۔ عشق حقیقی، عشق نور حقیقت ہے۔ یہ نور، جہاں سے بھی عیاں ہو گا، عاشق کے لیے محبوب ہو گا۔ عشق نبی عشق حقیقی ہے۔ عشق ال نبی ، عشق حقیقی ہے۔ عشق اصحاب نبی، عشق حقیقی ہے۔ اویس قرنی کا عشق حقیقی ہے۔ عشق رومی عشق حقیقی ہے۔ بلکہ اقبال کا عشق بھی عشق حقیقی ہی کہلائے گا۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment