Monday, 19 December 2011

محبت کرنے والوں کی صداقت اور ہے‘محرومِ محبت کا سچ اور ہے۔مثال کے طور پر لفظ’’انسان‘‘کو لیں۔ہر آدمی انسان کے بارے میں الگ شعور رکھتا ہے۔انسان کی تعریف میں ہمیں طرح طرح کے بیان ملیں گے۔مثلاً:
انسان اشرف المخلوقات ہے۔
انسان ظلوم و جہول ہے۔
انسان ہی احسنِ تقویم کی شرح ہے۔انسان اسفل السافلین بھی تو ہے۔
فطرت انسان پر فخر کرتی ہے۔
فطرت انسان کے اعمال پر شرمندہ ہے۔
انسان روشنی کا سفیر ہے۔
انسان اندھیرے کا مسافر ہے۔
انسان کو سوچنے والا بنایا گیا ہے۔اس کے سینے میں دھڑکنے والا دل ہے۔
انسان کے پاس سوچنے کا وقت ہی نہیں۔اس کے سینے میں برف کی سِل ہے۔
انسان کو انسان سے اتنی محبت ہے کہ انسان انسان پر مرتا ہے۔
انسان کو انسان سے اتنی نفرت ہے کہ انسان انسان کو مارتا ہے۔
انسان رحمان کا مظہر ہے۔
انسان شیطان کا پیروکا ر ہے۔
انسان فطرت کے ہر راز سے باخبر ہے۔
انسان اپنے آپ سے بھی بے خبر ہے۔
انسان کی خاطر اللہ نے شیطان کو دور کر دیا۔
شیطان کی خاطر انسان اللہ سے دور ہو گیا۔
انسان کو ان کے عمل اور ارادے میں آزاد رہنے دیا گیا۔
انسان کے عمل پر جبر کے پہرے بٹھا دے گئے۔
انسان کو اللہ نے آزادی دی،بادشاہی دی،عزت دی۔
انسان کو کس نے مجبوری دی،غلامی دی،ذِلت دی؟
انسان حیا کا پیکر ہے۔انسان لطافتوں کا مرقع ہے۔
انسان جنسیات کے تابع ہے۔انسان معاشیات سے مجبور ہے۔
انسان سماج بناتا ہے۔
انسان سماج شکن ہے۔
انسان صلح کا خوگر ہے۔
انسان جنگ و جدل کا شائق ہے۔
انسان کو علم ملا،زندگی ملی۔
انسان کو جہالت ملی،موت ملی۔
انسان دنیا میں بہت کچھ کھوتا ہے۔بہت کچھ پاتا ہے۔
انسان نہ کچھ کھوتا ہے نہ کچھ پاتا ہے۔وہ صرف آتا ہے اور جاتا ہے۔
غرضیکہ ایک لفظ’’انسان‘‘کی صداقتیں ہی اتنی وسیع المعنی ہیں کہ اس کے کوئی معنی نہیں۔انسان سب کچھ ہے۔انسان کچھ بھی نہی

No comments:

Post a Comment