Thursday, 9 January 2014



سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے
بے شک ستم جناب کے سب دوستانہ تھے

ہاں جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی
ہاں ہم ہی کار بندِ اصولِ وفا نہ تھے

آئے تو یوں کے جیسے ہمیشہ تھے مہرباں
بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے

کیوں دادِ غم ہم نے طلب کی، برا کیا
ہم سے جہاں میں کُشتہِ غم اور کیا نہ تھے

گر فکرِ زخم کی تو خطا وار ہیں کہ ہم
کیوں محو مدحِ خوبیِ تیغِ ادا نہ تھے

ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے

لب پر ہے تلخیِ ماہِ ایام ورنہ "فیض"
ہم تلخیِ کلام پہ مائل زرا نہ تھے

No comments:

Post a Comment