سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے
بے شک ستم جناب کے سب دوستانہ تھے
ہاں جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی
ہاں ہم ہی کار بندِ اصولِ وفا نہ تھے
آئے تو یوں کے جیسے ہمیشہ تھے مہرباں
بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے
کیوں دادِ غم ہم نے طلب کی، برا کیا
ہم سے جہاں میں کُشتہِ غم اور کیا نہ تھے
گر فکرِ زخم کی تو خطا وار ہیں کہ ہم
کیوں محو مدحِ خوبیِ تیغِ ادا نہ تھے
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے
لب پر ہے تلخیِ ماہِ ایام ورنہ "فیض"
ہم تلخیِ کلام پہ مائل زرا نہ تھے
No comments:
Post a Comment