Wednesday, 8 January 2014

خاک سے لالہ و گل سنبل و ریحان نکلے
تم پھی پردے سے نکل آؤ کہ ارمان نکلے


اُسکی آنکھیں سوال کرتی ہیں
میری ہمت جواب دیتی ہے


 ہاتھ میرا اۓ میری پرچھائی تو ہی تھام لے
ایک مدت سے مجھے تو سوجھتا کچھ بھی نہیں


میں کچھ نہ کہوں اور کہ چاہوں کہ میری بات
خوشبو کی طرح اُڑ کر تیرے دل میں اُترآۓ


وہ مُسکرا کے نئے وسوسوں میں ڈال گیا
خیال تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اُسے شرمسار کرنا ہے
چلو یہ اشک ہی موتی شمجھ کے بیچ آئیں
کسی طرح تو ہمیں روزگار کرنا ہے


ہاں بھلا دیا ہے اُس نے ہمیں کیا کہیئے
یاد رکھنے کے قابل بھی کہاں تھے ہم


واصف   دیارِعشق میں لازم ہے خامشی
مر کر بھی لب پہ آئے نہ ہرگز گلے کی بات


جلد بازی میں مت گنوانا
میں تیرا قیمتی اثاثہ ہوں

No comments:

Post a Comment